رُلادینے والی ایک انوکھی داستان اسدالدین اویسی اور مولانا محمود مدنی صاحبان کی
مولانا محمود مدنی مدظلہٗ کے پوڈکاسٹ کی وائرل کِلپ: تحقیق اور تجزیے کی روشنی میں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ناظرین کرام پہلے پوری بات سمجھ لیجیے گا اس کے بعد ہی اپنی رائے کمنٹ باکس میں لکھیے گا،اور اس ویب سائٹ کو فالو بھی کرلیجیے،
ناظرین کرام ،مولانا محمود مدنی کے حالیہ انٹرویو کی ایک کلِپ، اور اُس کے ساتھ کیپشن کی صورت میں ایک طویل تبصرہ، انٹرنیٹ پر گردش میں ہے۔ اُس گفتگو میں پیش کی گئی رائے، بے شک بحث و تجزیے کی میزان سے گزرنی چاہیے،
مگر شرمناک بات یہ ہے کہ:
ویڈیو سے کلِپ بناتے ہوئے، کسی بے ایمان نے، اس کے درمیان سے اچھا خاصا حصہ، کاٹ کر الگ کردیا ہے، جس کی وجہ سے سوال و جواب اور گفتگو کا مفہوم بدل کر رہ گیا ہے،
نیز یہ اور بھی افسوس ناک بات ہے، کہ مسخ شدہ ویڈیو کے ساتھ، جو اردو تبصرہ واٹسپ پر فارورڈ کِیا جا رہا ہے، اس میں اُسی مسخ شدہ مفہوم کو بنیاد بنا کر، مولانا محمود صاحب کو نشانہ بھی بنایا گیا ہے!
ایک ویڈیو کے درمیان سے کچھ حصہ کاٹ کر الگ کرنا، نتیجتاً ویڈیو کا مفہوم مسخ کرنا، پھر اُسی مسخ شدہ مفہوم کو بنیاد بنا کر، کسی شخص کو نشانہ بنانا، یہ جھوٹ در جھوٹ اور فریب در فریب، آخر کن لوگوں کی ضرورت ہے؟ اور اُس جھوٹ پر اس حد تک اعتماد کر لینا، کہ کہ خود یوٹیوب پر دستیاب ویڈیو تک، چیک نہ کرنا، یہ کیسی سادہ لوحی ہے؟
اُس مسخ شدہ ویڈیو میں، اصل ویڈیو کا، ہر وہ حصہ کاٹ کر الگ کر دیا گیا، جس میں مولانا نے، اویسی صاحب کے طرزِ سیاست سے اختلاف کرنے کے باوجود، ان کی قابلِ تعریف باتوں کی، کھل کر ستائش کی ہے،
مسخ شدہ ویڈیو میں یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے، کہ مولانا نے، اسد اویسی صاحب کے حامیان کو، پاگلوں کی بھیڑ کہا ہے، یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ ویڈیو میں مولانا صاف صاف کہہ رہے ہیں، کہ 15 منٹ کے لیے پولیس ہٹا لو، اس جیسے بیان، صرف مسلمانوں کی طرف سے نہیں، دوسری طرف سے بھی آتے ہیں، اور اُدھر بھی پاگل لوگوں کا مجمع جمع ہو جاتا ہے، مگر ایسے غیرقانونی بیان پر تالی بجانے والے، مٹھی بھر لوگوں کے نام پر، آپ تمام مسلمانوں کو الزام نہیں دے سکتے!
مسخ شدہ ویڈیو میں، ایک حصہ کاٹ دیا گیا، جس میں یہ واضح ہے، کہ مولانا نے ”15 منٹ کے لیے پولیس ہٹا لو“ کو، اکبرالدین اویسی کا بیان قرار دیا، پھر اُس ویڈیو پر، اردو تبصرے میں، مولانا پر یہ الزام لگایا گیا ہے، کہ انہوں نے 15 منٹ کے لیے پولیس ہٹانے والا بیان اسد اویسی کی طرف منسوب کرنے کو قبول کر لیا، جب کہ اصل ویڈیو میں مولانا کی زبان سے، صاف صاف ذکر ہے، کہ وہ اسے اکبرالدین اویسی کا بیان قرار دے رہے ہیں۔
اسُ انٹرویو میں اسد بھائی کا نام لیکر ہندوستانی تناظر میں جس خاص پوائنٹ پر سوال کئے گئے، اُس پس منظر کے تحت اگر دیکھا جائے، تو مجھے نہیں لگتا کہ مولانا محمود مدنی کا جواب کچھ بھی غلط ہو سکتا ہے،
بیرسٹر اسد اویسی صاحب ایک منجھے ہوئے، قابل سیاستدان کی حیثیت سے، جو مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں، اور بیانات دیتے ہیں، وہ نہ صرف حقیقت پر مبنی، درست، حق بجانب، بلکہ انکی سیاست کے عین موافق ہوا کرتے ہیں،
مسلمانوں کی بدولت ایوان میں پہنچتے ہیں، لھذا ان کے لیے انکے مرتبہ کے مطابق یہی بیانات موافق، اور مطابق ہو سکتے ہیں،
مولانا محمود مدنی ایک رفاہی تنظیم کے ذمہ دار، اور اسیر مالٹا مجاہدِ آزادی حضرت شیخ الاسلام کے، مشن کے حامی اور وارث ہیں،
مولانا محمود مدنی، ملک کے مختلف خطوں میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو، ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر، امن و شانتی کے پیغام کو عام کرنے، اور ذہنوں میں گھولی جانے والی نفرتوں کو دور کرنے کے لیے، کمر بستہ ہو کر، کوشش کر رہے ہیں، تاکہ نسلِ نو کے لیے، ایک اچھا ہندوستان اور مستقبل کی راہیں ہموار ہو سکیں،
میں نے آج تک جمیعت سے اتفاق رائے، یا اختلاف رائے، کارکردگی، اسلوبِ کار کے سلسلے میں، کبھی بھی اظہار خیال نہیں کیا،
البتہ اتنا ضرور ہے، کہ مولانا محمود مدنی کے سارے ذاتی بیانات، سیاق و سباق کے ساتھ اگر دیکھے اور سنیں جائیں، تو ہندوستانی تناظر میں، باالکل موافق اور نامساعد حالات کو، معتدل کرنے میں، انتہائی معاون ثابت ہوتے ہیں،
بیرسٹر اور مدنی صاحب، دونوں اپنے میدان عمل کے اعتبار سے برحق ہیں،
بات صرف اتنی ہے کہ بیرسٹر اسد صاحب کا جو میدانِ عمل ہے، اُس اعتبار سے وہ بولتے ہیں کرتے ہیں،
مولانا مدنی کا میدان عمل سدبھاؤنا، امن شانتی، نفرتوں کی بیخ کنی ہے، لھذا مدنی صاحب کا بیان اپنی جگہ درست ہے،
بیرسٹر اسد صاحب کو اپنے وجود کے لیے، وہی بولنا اور کرنا چاہیے، جو وہ بول رہے اور کر رہے ہیں،
مولانا محمود مدنی کو بھی اپنے میدان عمل کے اعتبار سے، وہی بولنا اور کرنا چاہیے جو انھوں نے اپنے مشن کے تناظر میں کیا،
جو نظریہ، آج مولانا مدنی کا ہے، اُسی نظریہ کے حامی، جد امجد شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمۃاللہ علیہ بھی تھے،
شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمۃاللہ علیہ نے، تحریکِ آزادی کے موقع پر، جب پاکستان الگ ملک بنانے کی حمایت میں اترے، اس وقت کے جید علماءِ دیوبند کی مخالفت کی تھی، اس وقت کے جید علماء دیوبند نے بھی مخالفت کی تھی،
موجودہ ہندوستانی تناظر میں، اگر خالص مسلم سیاست اور مسلم قیادت کی بات، غیر مسلموں کو ساتھ لئے بغیر کی جائے گی، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیاست، نمبرات اعداد و شمار کا کھیل ہے،
دوسری جانب بھی لوگ نظر، فہم، دماغ رکھتے ہیں،
بڑی دعاؤں اور کوششوں کے بعد، جب اِس سال گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں، مسلمانوں اور سمجھدار غیر مسلموں نے اتحاد کا ثبوت پیش کیا، تو کچھ راحت کی سانسیں میسر ہو پا رہی ہیں،
مولانا محمود مدنی نے، انٹرویو میں جو کہا، وہ باالکل مجاہدین آزادی، اسلاف و اکابر کے عین مطابق، ایک ایک جملہ حکمت عملی، مصلحت پسندی سے بھرپور، ہندوستانی مسلمانوں کی بہتری کے لئے، ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں کہا،
مولانا مدنی بھی دوسروں کی طرح، بلکہ دوسروں سے کہیں زیادہ، ہندوستانی سیاست پر گہری نظر اور پہنچ رکھتے ہیں،
تو ناظرین کرام مولانا مدنی اور اسد اویسی سے متعلق آپ جب اپنی رائے کا اظہار کریں تو ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے کریں، کیونکہ دونوں ہمارے اپنے ہیں اور دونوں مسلمانوں کی بھلائی اور بھارت میں امن و امان کیسے قائم رہے اس پر کام کرتے ہیں۔