آج کی اسلامی تاریخ 2024 | ہجری کیلنڈر کی چاند کی تاریخ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ محترم قارئین میری ویب سائٹ اردو ڈیٹ ( urdudate) پر آپ کا خیر مقدم ہے۔ قارئین محترم کیا آپ آج کی اسلامی تاریخ کیا ہے؟ اس کی معلومات لینا چاہتے ہیں؟ تو آپ صحیح جگہ پر ہیں، آپ یہاں سے ہجری کیلنڈر کی چاند کی تاریخ دیکھ سکتے ہیں اور نیچے اسلامی کیلنڈر کی خصوصیات سے متعلق معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسلامی و ہجری کیلنڈر کی تاریخیں انگریزی مہینے کی تاریخ کے ساتھ ۔
1/ جمادی الاخریٰ۔ 4/ دسمبر۔ بروز بدھ
2/ جمادی الاخریٰ۔ 5/ دسمبر۔ بروز جمعرات
3/ جمادی الاخریٰ۔ 6/ دسمبر۔ بروز جمعہ
4/ جمادی الاخریٰ۔ 7/ دسمبر۔ بروز سنیچر
5/ جمادی الاخریٰ۔ 8/ دسمبر۔ بروز اتوار
6/ جمادی الاخریٰ۔ 9/ دسمبر۔ بروز پیر
7/ جمادی الاخریٰ۔ 10/ دسمبر۔ بروز منگل
8/ جمادی الاخریٰ۔ 11/ دسمبر۔ بروز بدھ
9/ جمادی الاخریٰ۔ 12/ دسمبر۔ بروز جمعرات
10/ جمادی الاخریٰ۔ 13/ دسمبر۔ بروز جمعہ
11/ جمادی الاخریٰ۔ 14/ دسمبر۔ بروز سنیچر
12/ جمادی الاخریٰ۔ 15/ دسمبر۔ بروز اتوار
13/ جمادی الاخریٰ۔ 16/ دسمبر۔ بروز پیر
14/ جمادی الاخریٰ۔ 17/ دسمبر۔ بروز منگل
15/ جمادی الاخریٰ۔ 18/ دسمبر۔ بروز بدھ
16/ جمادی الاخریٰ۔ 19/ دسمبر۔ بروز جمعرات
17/ جمادی الاخریٰ۔ 20/ دسمبر۔ بروز جمعہ
18/ جمادی الاخریٰ۔ 21/ دسمبر۔ بروز سنیچر
19/ جمادی الاخریٰ۔ 22/ دسمبر۔ بروز اتوار
20/ جمادی الاخریٰ۔ 23/ دسمبر۔ بروز پیر
21/ جمادی الاخریٰ۔ 24/ دسمبر۔ بروز منگل
22/ جمادی الاخریٰ۔ 25/ دسمبر۔ بروز بدھ
23/ جمادی الاخریٰ۔ 26/ دسمبر۔ بروز جمعرات
24/ جمادی الاخریٰ۔ 27/ دسمبر۔ بروز جمعہ
25/ جمادی الاخریٰ۔ 28/ دسمبر۔ بروز سنیچر
26/ جمادی الاخریٰ۔ 29/ دسمبر۔ بروز اتوار
27/ جمادی الاخریٰ۔ 30/ دسمبر۔ بروز پیر
28/ جمادی الاخریٰ۔ 31/ دسمبر۔ بروز منگل
29/ جمادی الاخریٰ۔ 1/ جنوری بروز بدھ 2025
30 / جمادی الاخریٰ۔ 1/ جنوری بروز بدھ 2025
1/ رجب المرجب۔ 2/ جنوری۔ بروز جمعرات 2025
اسلامی کیلنڈر کی خصوصیات:
1۔قمری تقویم یعنی ہجری کیلنڈر (hijri calendar) میں ایک دن کے غروب آفتاب سے اگلے دن کے غروب آفتاب کا وقت پورا ایک دن کہلاتا ہے۔ اور سورج غروب ہوتے ہی اسلامی کیلنڈر کا اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو سورج غروب ہوتے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہو جاتا ہے اور اسی رات نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو سورج غروب ہونے پر شروع ہونے والی رات شوال کی پہلی رات ہوتی ہے۔ یہ نظام انتہائی سادہ اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس میں نہ تو کوئی پیچیدگی ہے اور نہ کسی قسم کا تکلف کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بالمقابل عیسوی تقویم یعنی گریگورین کیلنڈر (gregorian calendar) میں وقت کا معیار آدھی رات یعنی روزانہ رات بارہ بجے ہے۔ رات بارہ بجنے کے بعد نئی تاریخ (islamic date today) اور نیا دن شروع ہوتا ہے۔
اس کے لیے انسان کے پاس گھڑی کی موجودگی ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا وقت بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی کے پاس گھڑی نہ ہو یا اس کا وقت درست نہ ہو تو صحیح تاریخ کا تعین ناممکن ہوگا۔ نیز اسی طرح ہندی تقویم (hindu calendar) میں طلوع آفتاب کو وقت اور دن کے لیے معیار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ انداز کسی حد تک فطرت کے قریب ہے۔ مگر اس سے کسی مہینے کی انتہاء اور دوسرے مہینے کے آغاز کا تعین دشوار ہے۔
ان دونوں تقویموں کے بالمقابل اسلامی کیلنڈر (islamic calendar) جس میں غروب آفتاب کو دن کے تعین کے لیے معیار ٹھہرایا گیا ہے اس سے دنوں کے تعین کے ساتھ ساتھ مہینے کے آغاز اور اختتام کو معلوم کرنے میں بھی سہولت رہتی ہے اور اس کے لیے گھڑی یا اس قسم کی ایجادات و مصنوعات کی بھی حاجت نہیں رہتی۔
2۔عیسوی اور ہندی تقویم (gregorian and hindi calendar) کے مہینے کی تاریخ بھول جائے تو کسی صاحب علم سے دریافت کیے بغیر پتہ نہیں چل سکتا کہ آج مہینے کی کون سی تاریخ ہے۔ جبکہ قمری حساب میں چاند کو دیکھ کر ہی پتہ چل سکتا ہے کہ آج کسی رات کا چاند ہے؟ اور آج اسلامی مہینے کی تاریخ کیا ہے؟
اگر کسی عام آدمی کو اندازہ نہ ہو سکتا ہو تو وہ چودھویں شب کے یا مہینے کے ابتداء میں چاند دیکھ کر اپنے اندازے کو درست کر سکتا ہے۔ اگر کسی مہینے کسی سے چاند کے تعین میں غلطی سرزد ہو بھی جائے تو نئے چاند سے اصلاح ممکن ہے۔
3۔اسلام میں نماز کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں۔ نمازوں کے اوقات (prayer time today) کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام وضع فرمایا ہے کہ اس کے لیے انسانی مصنوعات و ایجادات کی قطعاً حاجت نہیں ۔ صبح صادق کے طلوع سے نماز فجر کا وقت شروع ہوتا ہے۔ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے پر عصر کا اور سورج غروب ہونے پر مغرب کا اور غروب شفق سے عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے۔
4۔اسی طرح اسلام کی دوسری اہم ترین عبادت روزے کا تعلق بھی چاند سے ہے۔ کہ اس کے ذریعے ماہِ شعبان کے اختتام اور ماہ رمضان کے آغاز کا تعین از حد آسان اور فطری ہے۔
5۔اسی طرح یکم شوال اور پھر یکم ذوالحجہ کی تعیین میں دشواری پیش نہیں آتی۔
6۔قمری تقویم (Qamri calendar) کا مکمل دار و مدار رؤیت ہلال یعنی چاند نظر آنے پر ہے۔ اسے سمجھنا ایک عام اور دیہاتی کے لیے بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا کسی صاحب علم کے لیے ۔ بلکہ ہمارا تو ، مشاہدہ ہے کہ آج کل اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی نسبت دیہاتی اور کم علم لوگ چاند کے طلوع و غروب کے متعلق بہتر معلومات رکھتے ہیں۔
اس نظام میں نہ تو کسی سے زیادہ دریافت کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی رصد گاہوں کی ۔ اسی خوبی کی وجہ سے تمام ادیان الہی میں قمری تقویم پر ہی انحصار کیا گیا ہے۔
7۔اسلامی ہجری کیلنڈر میں ایک مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ مہینے کے یہ دن انسانی دست پر سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ اگر ساری دنیا کے لوگ اس تعداد میں کمی یا بیشی کرن چاہیں تو نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ چاند کا طلوع و غروب کسی انسان کی استطاعت میں نہیں۔
اگر کبھی ایسی حرکت کی بھی جائے تو نئے مہینے کا طلوع ہونے والا چاند لوگوں کی جاری کردہ حرکت کو فاش کر دے گا اس کے برعکس عیسوی تقویم، گریگورین کیلنڈر (gregorian to hijri calendar) میں مہینے کے دنوں کی تعداد انسانوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہے اور اس میں حسب خاطر یا حسب ضرورت تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ ہر چار سال بعد فروی کے دنوں میں ایک دن کا اضافہ کر لیا جاتا ہے۔ اخبارات گواہ ہیں کہ 2008 میں یہ بحث چلتی رہی کہ اس دفعہ فروری کا مہینہ تیس دن کا قرار دے دیا جائے ۔ تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
9۔قمری مہینوں کے دنوں میں صرف ایک دن کا تفاوت ہے جو مروجہ شمسی سنین کی نسبت بہت ہی کم ہے۔ جبکہ شمسی تقویم کے مہینوں میں چار دن تک تفاوت پایا جاتا ہے۔ یعنی فروری کا مہینہ کبھی 28 دن کا اور کبھی 29 دن کا ہوتا ہے۔ اور باقی مہینے کوئی 30 دن کے اور کچھ 31 دن کے بھی ہوتے ہیں۔یہی صورت حال ہندی کیلنڈر (hindu calendar) یا بکری کیلنڈر (bikrami calendar) کی ہے کہ اس کے کچھ مہینے 29 دن کے، کچھ 30 دن کے، کچھ 31 دن اور کچھ 32 دن کے ہوتے ہیں۔
گرمی کے موسم میں جب دن بڑے ہوتے ہیں تو بکرمی کیلنڈر کی آج کی تاریخ (bikrami calendar date today) اور بکرمی مہینوں کے دن بڑھ کر 32 دن کے ہو جاتے ہیں اور موسم سرما میں جب دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مہینوں کے دن سکڑ کر 28 تک آ جاتے ہیں۔ قمری تقویم کا یہ طریق چونکہ انتہائی آسان، عام فہم ، فطری اور سادہ ہے اسی لیے تمام ادیان الہی میں اسی کو اصل اور بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
موجودہ دور میں اگر چہ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب نے قمری کی بجائے شمسی تقویم کو اپنا لیا ہے۔ تاہم ابھی تک ان میں بھی قمری تقویم کے کچھ آثار باقی ہیں۔ مثلاً عیسائیوں کے ہاں ایسٹر کا تہوار یا ایسٹر کا دن، یہودیوں کے ہاں کبور یا عاشور اور ہندوؤں کا دیپاولی تہوار اب بھی قمری حساب سے ہی منائے جاتے ہیں۔