آج محرم الحرام کی تاریخ | آج محرم کی کتنی تاریخ ہے | یوم عاشورہ (دس محرم) کب ہے؟

آج محرم الحرام کی تاریخ | آج محرم کی کتنی تاریخ ہے | یوم عاشورہ (دس محرم) کب ہے ؟

محترم قارئین کرام محرم المحرم الحرام کے مہینہ میں نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ کو شہادت نصیب ہوئی ۔ اس نسبت سے آج کے اس پوسٹ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل اور امام عالی مقام کی شہادت کا ذکر ہوگا۔ حضرت سیدنا حسینؓ کے فضائل و مناقب بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اسلامی سال کے پہلے مہینہ یعنی محرم الحرام کی تاریخی اہمیت اور اسکی فضیلت بیان کی جائے ۔ سب سے پہلے آج محرم الحرام کی تاریخ کیا ہے؟ جان لیجیے اس کے بعد یوم عاشورہ (دس محرم) کب ہے؟ یہ بھی جان لیں۔ 

آج کے اس پوسٹ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل اور امام عالی مقام کی شہادت کا ذکر ہوگا آج محرم الحرام کی تاریخ کیا ہے؟ جانیں گے پھر یوم عاشورہ (دس محرم) کب ہے؟ یہ بھی جان لیں۔

آج محرم کی کتنی تاریخ ہے؟

1/ محرم الحرام۔ 27/ جون 2025/ بروز جمعہ

2/ محرم الحرام۔ 28/ جون 2025/ بروز سنیچر

3/ محرم الحرام۔ 29/ جون 2025/ بروز اتوار

4/ محرم الحرام۔ 30/ جون 2025/ بروز پیر

5/ محرم الحرام۔ 1/ جولائی 2025/ بروز جمعرات

6/ محرم الحرام۔ 2/ جولائی 2025/ بروز جمعہ

7/ محرم الحرام۔ 3/ جولائی 2025/ بروز سنیچر

8/ محرم الحرام۔ 4/ جولائی 2025/ بروز اتوار

9/ محرم الحرام۔ 5/ جولائی 2025/ بروز پیر

10/ محرم الحرام۔ 6/ جولائی 2025/ بروز منگل

11/ محرم الحرام۔ 7/ جولائی 2025/ بروز بدھ

12/ محرم الحرام۔ 8/ جولائی 2025/ بروز جمعرات

13/ محرم الحرام۔ 9/ جولائی 2025/ بروز جمعہ

14/ محرم الحرام۔ 10/ جولائی 2025/ بروز سنیچر

15/ محرم الحرام۔ 11/ جولائی 2025/ بروز اتوار

16/ محرم الحرام۔ 12/ جولائی 2025/ بروز پیر

17/ محرم الحرام۔ 13/ جولائی 2025/ بروز منگل

18/ محرم الحرام۔ 14/ جولائی 2025/ بروز بدھ

19/ محرم الحرام۔ 15/ جولائی 2025/ بروز جمعرات

20/ محرم الحرام۔ 16/ جولائی 2025/ بروز جمعہ

21/ محرم الحرام۔ 17/ جولائی 2025/ بروز سنیچر

22/ محرم الحرام۔ 18/ جولائی 2025/ بروز اتوار

23/ محرم الحرام۔ 19/ جولائی 2025/ بروز پیر

24/ محرم الحرام۔ 20/ جولائی 2025/ بروز منگل

25/ محرم الحرام۔ 21/ جولائی 2025/ بروز بدھ

26/ محرم الحرام۔ 22/ جولائی 2025/ بروز جمعرات

27/ محرم الحرام۔ 23/ جولائی 2025/ بروز جمعہ

28/ محرم الحرام۔ 24/ جولائی 2025/ بروز سنیچر

29/ محرم الحرام۔ 25/ جولائی 2025/ بروز اتوار

30/ محرم الحرام۔ 26/ جولائی 2025/ بروز پیر

1/ صفرالمظفر۔ 27/ جولائی 2025/ بروز منگل

 

یوم عاشورہ (10 محرم) کب ہے؟

6/ جولائی 2025 بروز اتوار کو یوم عاشورہ (دس محرم) ہوگا۔

 

فضائل محرم اور حضرت حسین 

نحمده ونصلى على رسوله الكريم

بسم الله الرحمن الرحيم

وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ ” اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں۔ انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ تمہیں شعور نہیں

محرم کا لغوی منی معزز اور محترم کے ہیں۔ قرآن مجید میں بیت اللہ شریف کی نسبت سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ایک دعا کے الفاظ ہیں ۔

رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ۔

"اے اللہ میں نے اپنی اولاد بے آب و گیاہ بستی میں تیرے محترم گھر کے قریب بسائی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا۔ جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ ” اللہ نے کعبہ کو بنایا جو کہ محترم مکان ہے، محترم گھرسے مراد خانہ کعبہ ہے ۔ یہ اگر چہ اُس وقت اپنی اصل حالت میں نہ تھا ۔ 

تاہم اُس کی جگہ جانی پہچانی اورسب کی نگاہوں میں محترم اور متبرک تھی۔ ایک دوسری جگہ فرمایاگیا۔

إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ۔

بے شک مہینوں کی تعداد تو اللہ کے نزدیک بارہ ہی ہے ۔ اس دن سے جب سے اس نے زمین و آسمان بنائے، ان میں سے چار مہینے خصوصا عظمت والے ہیں ۔ پس ظلم نہ کرو اپنی جانوں پر ان مہینوں میں ” 

عظمت اور حرمت والے یہ چار مہینے درج ذیل ہیں

(۱) محرم (۲) رجب (۳) ذیقعدہ (۴) ذی الحجہ 

فضیلت محرم

عرب زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں جنگ و قتال کو حرام سمجھتے تھے ۔ ظہور اسلام کے بعد ان مہینوں کی حرمت عظمت و فضیلت اور زیادہ ہوگئی ۔ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ۔ ” رب العزت نے حکم دے دیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ” ان چار مہینوں میں سے محرم الحرام کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ماہ محرم الحرام کو شہر اللہ (اللہ کا مہینہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ کئی مقامات پر کعبہ شریف کو بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ناقتہ اللہ اور شہنشاہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا ہے ۔ محرم الحرام کی فضیلت کے ضمن میں دو حدیثیں پیش کرتا ہوں ۔ تاکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اسلام کے پہلے مہینہ کی اہمیت اجاگر ہو سکے ۔ فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم ” رمضان کے بعد سب مہینوں سے افضل محرم الحرام

کے روزے ہیں ۔

ایک دوسری جگہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ من صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون یوما ۔ یعنی ایام محرم میں سے ایک یوم کا روزہ دوسرے مہینوں کے تیس ایام کے برابر ہے ۔  

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل یہی عاشورہ (10 محرم ) کا روزہ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر فرض تھا۔ لیکن رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اب جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ 

اصلاح عقیدہ

مسلمانوں کو عاشورہ محرم یعنی محرم کی دسویں تاریخ کی حقیقت سے متعلق اپنا عقیدہ درست رکھنا چاہیے۔ یاد رکھیئے، ہمارا طریقہ وہی ہونا چاہیے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نے اپنے صحابہ کو ، صحابہ نے تابعین کو اور تابعین نے تبع تابعین کو بتایا اوران سے بزرگان دین کی معرفت ہم تک پہنچا ۔ ہر انسان کا ایک شجرہ نسب ہوتا ہے ، کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے اور اس کا باپ فلاں، اور اوپر اس کا دادا فلاں اور پردادا فلاں ہیں۔ جس شخص کا شجرہ نسب او پر چلتا ہوا کہیں مل جائے ، وہ محترم و مکرم تصور کیا جاتا ہے اور جس کا شجرہ نسب کہیں راستہ میں ہی گم ہو جائے اور اوپر نہ پہنچ پائے۔ تو وہ مشکوک اور غیر پسندیدہ شخص کہلائے گا 

اسی طرح اعمال کا بھی شجرہ نسب ہوتا ہے ۔ اگر کوئی عمل اور پر چلتا چلتا ہادی برحق علیہ الصلوة و السلام تک پہنچ جائے وہ محبوب ترین عمل ہے ، نیکی ہے ، دین ہے ، اور اگر کسی عمل کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچے بلکہ کہیں راستے میں گم ہو جائے تو وہ اسلام نہیں۔ دین نہیں بلکہ جھوٹ ہے ، فریب ہے، اور شریعت کی زبان میں اسے بدعت اور فسق و فجور کہا جائے گا۔

مقصود یہ ہے کہ عاشورہ محرم یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا احترام اسی طرح کرنا چاہئیے جس طرح ہمارے آقا مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور ہمیں کرنے کی تلقین فرمائی ۔ یہ فیصلہ کرنا امت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے کہ انہوں نے اس دن کو اپنے نبی کے طریقہ پر منانا ہے یا کسی اور طریق پر ۔ بات وہی معتبر ہے جو کملی والے نے کہی ہے۔ اہمیت انہی کے فرمان کی ہے، فضیلت انہی کے بیان کی ہے، بنی جس بات کا حکم دیتا ہے اپنی طرف سے نہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے ۔ نبی کا ہر عمل خدائے بزرگ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ 

نواسہ رسول 

حضرت امام حسین عالی مقام حضرت علیؓ کے نور العین تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے دل کے چین تھے۔ دوشِ رسالت کے شاہسوار تھے۔ وہ کوئی معمولی انسان نہ تھے ۔ ان کی تربیت کے تین بڑے مکتب تھے ۔ پہلا مکتب آغوش فاطمہ ، دوسرا مکتب حضرت علی کرم اللہ وجہ، اور تیسرا مکتب نانا پاک صلی اللہ علیہ سلم کی مبارک گود تھی۔ سیرت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے جتنا پیار حضرت حسین سے کیا اتنا کسی اور سے نہیں کیا ۔ سرکار دو جہاں صلی الہ علیہ سلم کا اپنے نواسے سے پیار کا یہ عالم تھا کہ آپ کی گردن پیشانی، آنکھوں اور لبوں سے بوسے لیا کرتے تھے۔ ایک روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علی وسلم حضرت حسین کو چوما کرتے تھے اور سونگھا کرتے تھے ۔ حضرات محترم با بظاہر یہ عجیب سی بات ہے بچوں سے پیار ہم بھی کرتے ہیں، یہ چومنا تو سمجھ میں آتا ہے سونگھنا سمجھ میں نہیں آتا ۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے کو انسانی فطری تقاضے کے تحت چومتے تھے جبکہ سونگھتے اس لئے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ کے جسم سے نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم کو جنت کی خوشبو آیا کرتی تھی ۔ آئیے دیکھیں کہ تین اداروں میں تربیت حاصل کرنے والا طالب علم کیا تھا اور وہ ادارے کتنے عظیم تھے ؟ 

پہلا ادارہ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود تھی ۔ آپ کے بارے میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حسین کو دودھ کبھی بغیر وضوکے نہیں پلایا ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا ہاتھ سے چکی پیستے ہوتے حسینؓ کودودھ پلارہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خدا کا قرآن بھی پڑھ رہی ہیں۔ 

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اپنے والد سے محبت کا یہ عالم تھا کہ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ کے بغیر ایک پل بھی نہ رہتی، جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے ، تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے والد کی عزت و تکریم کے لئے کھڑی ہو جاتیں۔ لیکن یہ کوئی اچھمبے کی بات نہیں بیٹیاں اپنے والدین کے احترام میں کھڑی ہو جایا کرتی ہیں ۔ لیکن جب بھی حضرت فاطمہ صاحب لولاک صلی اللہ علیہ سلم کے گھر تشریف لاتیں تو دو جہاں کے شہنشاہ اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ۔ ایسی خدمت گزار فرمانبردار اور خوش نصیب بیٹی دنیا میں اپنی مثال آپ تھیں ۔ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ کو بڑی محبت اور شفقت کرتے ہوئے اپنے پاس بٹھایا اور کان میں کچھ کہا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کچھ دیر بعد سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ سل نے پھر اپنی بیٹی کے کان میں کچھ کہا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر مسرت اور شادمانی کھلنے لگی۔ حضرت اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے استفسار پر حضرت فاطمہؓ نے بتایا کہ پہلی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل سال میں ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ اس بار انہوں نے دو دورے کئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے ابا جان کے جانے کا وقت قریب آگیا ہے۔ یہ افسوس ناک اشارہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ سلم نے دیکھا بیٹی کہیں صدمہ دل کو نہ لگا بیٹھے۔ سرگوشی کرتے ہوئے بتایا تم جنت میں عورتوں کی سردار ہوگی اور مجھ سے جلد ہی آملو گی۔ اس خوشخبری سے آپ اس قدر خوش ہوئیں کہ مسکرا دیں ۔ آنحضرت صلی للہ علیہ سلم کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ فوت ہوئیں۔ لیکن اس دوران کسی نے آپ کو ہنستے یا مسکراتے نہیں دیکھا۔ 

اللہ رب العزت ہماری بہنوں بیٹیوں کو یہ توفیق عطا فرمائیں کہ وہ دین کے مطابق زندگی گزاریں۔ اللہ انہیں فاطمہؓ کی حیا عائشہؓ کا پردہ اور خدیجہؓ کا تقویٰ عطا فرمائے۔ تاکہ وہ ایسے فرزندوں اور بیٹیوں کو جنم دے سکیں جو دین کی سربلندی اسکی حرمت اور اس کی بقا کیلئے بیش بہا قربانیاں دے سکیں (آمین)

Leave a Comment